حج بدل کے لیے کس شخص کو بھیجا جائے

MASALA NO.#05


     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا اور اس پر حج فرض بھی نہیں، تو کیا اسے حج بدل کے لیے بھیج سکتے ہیں؟ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایۃ الحق و الصواب 

    شرائط کی موجودگی میں کسی دوسرے سے حج بدل کروا سکتے ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ حج بدل کے لیے ایسے شخص کو بھیجا جائے جو متقی پرہیزگار، حج کے مسائل کو جانتا ہو اور اپنی طرف کے حج ادا کر چکا ہو تاکہ ارکان حج کامل طریقے سے ادا کر سکے اور اگر اس نے پہلے حج نہیں کیا اور اس پر حج فرض بھی نہیں، تو اسے بھیجنا بھی جائز ہے اور حج بھی ادا ہو جائے گا البتہ جس شخص پر حج فرض ہو چکا ہو اور اس نے ابھی تک ادا بھی نہ کیا ہو، پہچان بوجھ کر اسے حج بدل کے لیے بھیجنا مکروہ تحریمی ہے۔ 

    شرائط کی موجودگی میں دوسرے سے حج کروا سکتیں ہیں۔ چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے : ”العبادات ثلاثۃ انواع: مالیۃ محضۃ کالزکاۃ صدقۃ الفطر، وبدنیۃ محضۃ کالصلاۃ والصوم ، و مرکبۃ منھما کالحج۔ والانابۃ تجری فی النوع الاول فی حالتی الاختیار الاضطرار  و لا تخریب فی النوع الثانی و تجری فی النوع الثالث عند العجز “عبادت کی تین قسمیں ہیں : فقط مالی : جیسے زکاۃ اور صدقہ فطر۔ فقط بدنی : جیسے نماز اور روزہ۔ مالی اور بدنی کا مجموعہ : جیسے حج۔ پہلی قسم میں اختیاری اور اضطرابی دونوں حالتوں میں( اپنی طرف سے دوسرے کو) نائب بنانا صحیح ہے  اور دوسری قسم میں مطلقاً درست نہیں اور تیسرے صورت میں جود قادر نہ ہونے کے وقت نائب بنا سکتے ہیں 

( فتاوی عالمگیری، ج1، ص283 )

    حج بدل کے لیے کس شخص کو بھیجنا بہتر ہے اس بارے میں الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :” والاولی ان یختار رجلا حرا عاقلا بالغا قد حج عالما بطریق الحج و افعال لیقع حجہ علی اکمل الوجوہ “ ترجمہ : بہتر یہ ہے کہ حج کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کرے جو آزاد عاقل بالغ اور اس نے پہلے حج کرلیا ہو اور حج کے ‌ مکروہ تحریمی ہے۔ 

( بہار شریعت ج1، ص1204 مکتبہ المدینہ) 

    اور مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ” حج بدل‌میں ایسے شخص کو بھیجنا چاہئے جو متقی پرہیزگار اور حج کے مسائل کو جاننے والا ہو اگر پہلے حج کر چکا ہے تو زیادہ اچھا ہے اور اگر پہلے حج نہیں کیا جب بھی بھیجنا جائز ہے  

( وقاری الفتاوی ج 2، ص 467 مطبوعہ بزم وقار الدین) 

واللہ اعلم ورسولہ اعلم

کتبہ مفتی محمد قاسم عطاری